تُمپ گوں ھشیمیں گواتگِراں (تیسری قسط)

 


بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان  

(تیسری قسط)  

میں اور دودا قبرستان اور کیکر کا درخت دیکھنے کے بعد کاریز پر آئے۔ یہ کاریز بالیچہ کے کاریز سے جانا جاتا ہے۔ بالیچہ کے کاریز شھزادگ کے قوم کے بعد رئیس قوم کے پاس رہے ہیں اور آج بھی ان کے حوالے ہیں۔ اِس کاریز کی سر رشتگی یا سربراہی عارف حکیم اور ان کے بھائی نسیم کے پاس ہے۔ بالیچہ کا "بانوریں" کھجور کے باغات اس کاریز سے سیرآب ہوتے ہیں۔  

یہاں پر پانی کے دو ذرائع ہیں ایک یہی کاریز ہے اور دوسرا نہریں تھیں۔ اِن نہروں کی بدولت لوگ ھشک آباد سے لیکر بالیچہ کے زیریں علاقوں تک کاشت کاری کرتے تھے۔ یہاں پر گندم سمیت دیگر فصل کاشت کئے جاتے تھے۔ کاریز سے کھجور کے باغات کو پانی دیتے۔ بالیچہ کے کاریز بہت سے "شون" ہیں جو کُنرگادِرّ سے شروع ہوکر نیچے آتا ہے۔ جن کے نام مجھے دستیاب ہوئے ہیں وہ اس طرح ہیں۔ کِرّ، سالونکانی شون(یہاں دلہے کو نہلاکر سجایا جاتا تھا) ، میار ءِ شون ، سِنگ ءِ شون (یہاں پر بہت بڑا پتھر ہوا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ پتھر شدْری کا سیلاب لے آیا تھا) ، بَندُک ءِ شون، حسین ءِ شون، نمازجاہ اور امب یعنی آم کے شون ہیں۔ شون کاریز کا وہ مقام ہے جس میں پانی جمع ہوتا ہے جہاں لوگ اپنے کپڑے دھوتے ہیں یا مال و مویشیوں کو پانی پلاتے ہیں۔ 

بالیچہ قدیم زمانے میں تُمپ کا آباد علاقہ رہا ہے۔ یہاں کے لوگ خوشحال تھے۔ اِسی طرح سیاسی اور سماجی شعور کے حوالے سے بھی بیدار رہے ہیں۔ بلوچی زبان کے شاعر اور قلمکار واجہ نزیر دھکان اپنی تحقیق پر مبنی تحریر میں بالیچہ کے رئیس تاج محمد اور رئیس داد محمد کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں۔ 

"گُوک پُروش کے معرکہ کی تاریخ ابھی تک نامکمل ہے۔ لہذا گوک پروش کے معرکہ کی تاریخ پر اچھے طریقے سے تحقیق کرکے اصل حقائق سامنے لائے جائیں۔ کیچ کے سردار میر محراب خان گچکی کے دوسپاہی رئیس داد محمد اور رئیس تاج محمد گُوک پُروش کے معرکہ میں شہید ہوئے تھے لیکن میں اب تک گُوک پُروش معرکہ کے بارے میں جتنے بھی داستان میں پڑھ چکا ہوں یا سن چکا ہوں اِس میں اِن دلیر بھائیوں کا تذکرہ موجود نہیں۔ اِس سے عیاں ہوتا ہے کہ ہماری قومی تاریخ میں بہادر سپوتوں کے نام قصداً نکالے گئے ہیں یا لاعلمی میں اُن کو فراموش کیا گیا ہے۔ رئیس داد محمد اور رئیس تاج محمد دو بھائی تھے جو بالیچہ تُمپ کے رہنے والے تھے۔ یہ گِوک پُروش معرکہ کے فراموش کئے گئے وہ گمنام شہداء ہیں جن کے نام قومی تاریخ کے اوراق میں درج نہیں۔ شہید رئیس داد محمد اور شہید رئیس تاج محمد بلوچی زبان کے معروف شاعر اور نقاد شبیر نور کے پردادا تھے"۔  

اِن لوگوں کے علاوہ بالیچہ کے متعبر شخصیت عبداللہ جو کہ نزیر دھکان کے دادا تھے اُس نے بھی اپنا سماجی کردار احسن طریقے سے نبھایا ہے۔ متعبر عبداللہ کی گچکی حکمرانوں سے قریبی قربت رہی تھی ایک طرح سے وہ گچکی حکمرانوں کے بہترین نمائندہ تھے۔ اُن کے بعد اُن کے قریبی ساتھی احمد ولی محمد اور عارف حکیم کے والد متعبر عبدالحکیم علاقے کے سربراہ رہے تھے۔ اسی طرح بالیچہ میں میجر محب اللہ کے والد واجہ حاجی عبدالمک ایک بہترین مذہبی رہنماء گزرے ہیں۔ بالیچہ کی سب سے بڑی مسجد اُنہوں نے تعمیر کروائی تھی۔ اُن کا علاقے میں بڑا عزت و احترام تھا۔ 

بالیچہ کو اپنے نواحی علاقوں کے ساتھ حکومت نے یونین کونسل کا درجہ دیا ہے۔ کوھاڈ سے میرآباد تک تمام علاقے اِسی یونین کونسل میں شامل ہیں۔ یونین کونسل کی آبادی تقریبا بیس ھزار کے قریب ہے لیکن سرکاری اعدادوشمار کے مطابق یہ آبادی بیس ہزار سے اوپر ہے۔ بالیچہ کا ماضی کا زمانہ سیاسی اور ادبی حوالے سے زرخیز رہا ہے اور آج بھی ہے۔ یہاں بی ایس او کے سابقہ چئیرمین منصور بلوچ ، کامریڈ گلام نبی، شہید میجر محمد علی ، شہید صمد تگرانی ،دوست محمد توفیق ، ماسٹر محمد امین اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے سیاست میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور وہ ابھی تک سیاست میں حصہ لے رہے ہیں۔ 

ادب کے شعبہ میں بھی بالیچاہ کا اہم حصہ رہا ہے۔ بلوچستان اکیڈمی کے قیام سے قبل یہاں پر ملا فاضل اکیڈمی کی شاخ موجود تھی جس کے تحت یہاں کے ادبی دوستوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے۔ جب 1990 میں بلوچستان اکیڈمی قائم کی گئی تو ملا فاضل اکیڈمی کو بلوچستان اکیڈمی میں شامل کیا گیا جس کے بعد بلوچستان اکیڈمی کی شاخ یہاں کام کرتی ہے اور یہاں کے ادبی دوست بلوچستان اکیڈمی سے منسلک ہوجاتے ہیں۔ بالیچہ نے بلوچی زبان اور ادب کو کئی شاعر اور قلمکار دیئے ہیں جن میں عیسٰی انسان، دوست محمد توفیق، عبدالطیف عادل، میجر محب اے ملک ، قادر وفا، نزیر دھکان، مجید عاجز، خالق ارمان، شبیرنور، یار مراد، شاھجان قادر ، ماجد شاہ ،شیرجان نظر اور دیگر شامل ہیں۔ 

یہاں پر سماجی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے بھی سماجی ادارے موجود تھے۔ عیسٰی انسان جو بالیچہ کے سابقہ یوسی ناظم رہ چکے ہیں وہ بلوچی زبان کے بہترین شاعر تھے۔ عیسٰی انسان کا کردار معاشرے کے لئے مثالی رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ عیسی انسان اپنے نام کی طرح بہترین اسلوب اور کردار کے انسان شُناس اور اپنے اندر ایک ادارہ تھے۔ عیسٰی انسان ہمیشہ بالیچہ کے غریب لوگوں کو علاج کے لئے کیچ اور تربت لیجاتے۔  عیسٰی انسان کا تعلق متعبر خاندان سے تھا لیکن وہ پمیشہ عام لوگوں میں گھل ملتے، ان کا شادی بیاہ میں ہاتھ بٹھاتے اور ان کے غم میں برابر شریک رہے تھے۔ اسی طرح سماجی و فلاحی اور بہبودی کے حامل اداروں ھمدرد سوسائٹی اور این آر ایس پی نے یہاں پر بہت کام کئے ہیں۔ 

کھیلوں کے حوالے سے بھی بالیچہ کے کرکٹ اور والی بال کی دو مضبوط ٹیمیں موجود ہیں۔ یہاں کے نوجوان بڑے شوق سے کھیلوں کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ بالیچہ کے مرحوم انکل غنی ایک بہترین کھلاڑی تھے جو ضلع کیچ میں مشہور رہے ہیں۔ تعلیم کے لئے یہاں ایک ھائی اسکول لڑکوں اور ایک مڈل اسکول لڑکیوں کے لئے قائم کیا گیا ہے۔ بالیچہ کے لوگ تعلیم کے شعبہ میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ بڑے سرکاری عہدوں پر فائز ہیں اور بہت سے لوگ بیرون ملک خلیج میں بر سرِ روزگار ہیں۔ 

بالیچہ موجودہ دور کے غیر یقینی صورتحال سے بھی متاثر رہا ہے۔ بہت سے لوگ مزاحمتی تحریک میں شامل ہوئے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے حالات دگرگوں رہے اور حالات کی خرابی کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے لئے یہاں پر رہنا مشکل ہوگیا جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ یہاں سے نقل مکانی کرکے شہری آبادیوں کی طرف چلے گئے۔ نشہ کے حوالے سے مکران کے دیگر علاقوں کی طرح بالیچہ بھی محفوظ نہیں بلکہ یہاں نشہ کا رجحان زیادہ ہے۔ بالیچہ قدیم زمانہ سے منشیات کا اڈہ رہا ہے جس کی وجہ سے نواح کے لوگ اپنے نشہ کی طلب پورے کرنے کے لئے بالیچہ کا رخ کرتے۔ نشہ کی لت نے یہاں کے کئی ماؤں کے لخت جگر کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے اور اس وباء کی وجہ سے کئیوں کے زندگیوں کے چراغ گل ہورہے ہیں۔  

(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں