کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (ساتویں قسط)

 


سفرنامہ بلوچی: اسحاق رحیم   

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان

(ساتویں قسط)  

اگلی صبح میں اور قدیر کیچ کے دیگر مقامات دیکھنے کے لئے نکل گئے۔ پزیر جی ایم گزشتہ شب 9 بجے سے چلا گیا تھا۔ ہم تقریبا صبح 9 بجے قدیر کے گھر سے نکلے اور کوہِ امام کی طرفہ روانہ ہوئے۔ کوہِ امام زِگری فرقہ کی پرانی مقدس جگہ ہے جو تربت سے جنوب کی طرف واقع ہے۔ ہم تربت میں نو تعمیر شدہ بس ٹرمینل سے تھوڑا آگے کی طرف مغربی روڑ سے ہوتے ہوئے کوہِ امام کی طرف جارہے تھے۔ ہمارے دائیں یعنی شمال کی طرف ایک بہت بڑی چاردیواری تھی یہ دیوار بہت طویل تھی۔ قدیر مجھ سے کہنے لگا کہ یہ کمپاؤنڈ نیوی فورس کی ہے۔ میں اِس بات پر حیران رہ گیا کہ نیوی کا یہاں کام مگر اس میں ہمارا کہاں بس چلتا ہے۔ جس طرح اِس ملک کے حکمران طاقت ور ہیں اِسی طرح اُن کے ادارے بھی ہیں۔ موجودہ زمانہ میں بلوچستان بھر میں آپ جہاں جائیں اِس طرح کے املاک آپ کو دیکھنے میں آئینگے۔

میں اور قدیر آگے جارہے تھے تھوڑی مسافت کے بعد ایک ندی آگئی۔ قدیر مجھ سے کہنے لگا یہ سوراپ ندی ہے، یہ ندی یہاں سے شروع ہوکر کیچ ندی میں جاگرتی  ہے۔ سوراپ ندی سے گزرنے کے بعد ہمارے سامنے ایک گول پہاڑی نظر آنے لگا۔ قدیر کہنے لگا کہ یہ کوہِ امام ہے، پہاڑی کے اوپر کمرے بھی نظر آرہے تھے میں نے استفسار کیا کہ یہ عبادت کی جگہ ہونگے؟۔ قدیر نے جواب دیا نہیں، یہ چیک پوسٹ ہیں۔ نیچے کوہِ امام کی زیارت ہے یہاں پر لوگ زِگر اور عبادت کرتے ہیں اور  اُوپر سیکورٹی کے اہلکار بیٹھے ہوئے ہیں۔ بات پھر وہی ہے کہ اُن کون سمجھائے۔ اُنہوں نے مسجد، زِگرانہ اور اسکول سے  لیکر کالج کی عمارت تک کو اپنی سکیورٹی میں لیا ہے۔ کوہِ امام پہنچنے کے بعد ہماری ملاقات یہاں کے عبادت گاہ کے مجاور واجہ اللہ داد سے ہوئی۔ اللہ داد ایک ساٹھ سالہ شخص ہے جو قدیر کا جاننے والا تھا۔ وہ ہم سے گرمجوشی سے ملا لیکن وہ جلدی میں تھا اور کہنے لگا کہ زیارت میں لوگ آئے ہوئے ہیں اور مجھے زگر کے لئے ان کی امامت کرنے کے لیئے جانا ہے۔ 

کوہِ امام کے عبادت گاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زگریوں کے مھدی کے بارہ ہم نشینوں میں سے کچھ کی یہ عبادت گاہ رہی ہے جس کی وجہ سے زگری فرقہ کے لوگ اِس جگہ کو مقدس سمجھتے ہیں۔ کوہِ امام میں دو زِگرانہ بھی تعمیر کئے گئے ہیں جس میں ایک اُوپر کی طرف واقع ہے اور دوسرا نیچے ہے۔ وہاں پر سائے کے لئے بہت سے درخت اگائے گئے تھے اور چبوترے بھی تعمیر کئے گئے ہیں۔ نیچے جو زِگرانہ ہے اِس کے اطراف میں بہت سے درخت لگائے گئے ہیں جس سے یہاں کا منظر بہت ہی خوبصورت لگتا ہے۔ کوہِ امام پر پتھریلی زمین پر بھی ایک عبادت گاہ موجود ہے جہاں ہمیں کچھ لوگ زِگر اور عبادت میں مشغول نظر آئے۔ کوہِ امام سے نکلنے کے بعد ہم مشرق کی طرف روانہ ہوئے۔ کوہِ امام اور بس ٹرمینل سے مشرق کی طرف کوہِ مراد کی زیارت گاہ واقع ہے۔ کوہِ مراد دراصل چھوٹا پہاڑی ٹیلہ ہے، زِگریوں کے عقیدے کے مطابق امام مھدی نے یہاں آکر عبادت کی ہے۔

زِگری مکران کا پرانا مذہبی فرقہ ہے جن کا عقیدہ مھدی سے وابستہ ہے۔ یہ اپنے آپ کو اسلام کا ایک فرقہ بھی سمجھتے ہیں لیکن وقت گزر جانے کے ساتھ ساتھ زگریت کی تعلیم نہ دینے اور اِس فرقہ سے وابستہ افراد کو نہ سکھانے کی وجہ سے آج اِس فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت کے پاس اپنے مذہبی عقیدے کے  متعلق خاطر خواہ آگاہی موجود نہیں۔ ڈاکٹر حمید بلوچ اپنی کتاب "مکران عہد قدیم سے عہد جدید تک" میں مختلف کتابوں کا حوالہ دیکر زِگری فرقہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اِس فرقہ کی بنیاد ھندوستان کے محمد جونپوری نے رکھی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ شخص یعنی محمد جونپوری پہلی مرتبہ مھدی ہونے کا دعوٰی کرتا ہے اور زِگری فرقہ کی ابتداء وہاں سے ہوتی ہے"۔  

محمد جونپوری کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ شخص 1443 عیسوی میں ھندوستان کے علاقے جونپور میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ جوانی میں پنجگانہ نمازی اور دین دار شخص تھے۔ محمد جونپوری کے بارے میں ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں کہ "محمد جونپوری نے سات سال مُسلسل روزہ رکھا تھا اور انتہائی درجے کے عبادت گزار تھے۔" کہتے ہیں کہ محمد جونپوری  سات سال کی عمر میں حافظ القرآن ہونے کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور وہ پائیہ کے بزرگ نکلتے ہیں جس سے بہت سے لوگ ان کے مرید بن جاتے ہیں"۔ محمد جونپوری چالیس سال کی عمر میں 1495 عیسوی میں اپنے سات مریدوں کے ساتھ حج پر جاتے ہیں، پھر وہ مکہ میں کچھ مہینے قیام کرتے ہیں،  اسے وہاں پر بشارت ہوتی ہے اور وہ وہاں سے اپنے مھدی ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ 

وہ مکہ سے اپنے مریدین کے ساتھ گجرات میں آتے ہیں اور یہاں پر بھی مھدی ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد اُس کے مرید بن جاتے ہیں لیکن مھدی کے دعوے پر سارے عالم دین اُن کے دشمن بن جاتے ہیں۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ گجرات میں اسکی جان محفوظ نہیں ہے تو وہ اپنے چند مریدوں کے ہمراہ وہاں سے نکلتے ہیں۔ 1499 عیسوی میں وہ بہت سے علاقوں میں قیام کرتے ہوتے ہوئے اپنے مریدوں کا حلقہ بناتے ہیں پھر وہ ٹھٹہ سندھ میں آتے ہیں۔ اُس زمانہ میں سندھ کے حاکم جام نظام الدین سمہ تھے۔ جام نظام الدین اس کا یہ دعوٰی نہیں مانتے اور اُس کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن ٹھٹہ میں اور اِس کے گردونواح کے لوگوں کی بڑی تعداد اُس کے مرید بن گئے تھے۔ ٹھٹہ سے وہ خراسان اور پھر افغانستان چلے جاتے ہیں جہاں وہ تقریبا 1504 عیسوی میں فرح افغانستان میں وفات پاتے ہیں۔ اُن کی قبر بھی وہاں موجود ہے۔ 

محمد جونپوری کی کوہِ مراد آمد کے متعلق دو سے تین آراء سامنے آئے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ وہ مکہ واپسی کے بعد کوہِ مراد کے مقام پر آتے ہیں اور یہاں پر اپنے مریدین کے ساتھ قیام کرتے ہیں اور یہی سے متعدد لوگ اس کے مرید بن جاتے ہیں۔ لیکن کچھ کا خیال ہے وہ کہ گجرات اور ٹھٹہ سے واپسی کے وقت خراسان جانے سے پہلے اس راستے سے جاتے ہوئے کوہ مراد میں ٹھہرتے ہیں۔ 

بہت سے محققین کا کہنا ہے کہ یہاں پر محمد جونپوری خود نہیں آئے تھے بلکہ اُن کے مرید خاص "محمد اٹکی" یہاں پر آکر ان کا پیغام پہنچاتے ہیں جس سے لوگ زگری عقیدہ کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ مکران میں تقریبا سولویں صدی عیسوی میں زِگری عقیدہ پھیل جاتا ہے اور بہت سے لوگ اِس فرقہ کو اختیار کرتے ہوئے مھدی کے ماننے والے بن جاتے ہیں۔ انگریز برٹش پولٹیکل ایجنٹ کپٹن اے سی راس 1868 عیسوی میں اپنے میمورینڈم آف مکران میں لکھتے ہیں کہ "مکران میں زِگری حکمرانوں کے دور میں یہاں پر ایک وفاقی ریاست ہواکرتی تھی جس کا ریاستی مرکز کسر کند جبکہ اس کا مذہبی مرکز تربت تھا"۔

ان باتوں سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ زِگری عقیدہ پھیلنے کے بعد مکران کی حکمرانی ایک بہت عرصے تک زِگری فرقہ کے لوگوں کے ہاتھوں میں رہی تھی۔

(جاری ہے) 


Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں