کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (دسویں قسط)

 


سفرنامہ بلوچی: اسحاق رحیم

ترجمعہ: عبدالحلیم حیاتان  

(دسویں قسط)  

تربت بازار سے ہم کیچ کا قدیم قلعہ "میری ءِ کلات" دیکھنے کے لئے روانہ ہوئے۔ ہم نے کیچ ندی کا بڑا پھل پار کیا جس کے دائیں طرف جُوسَک بازار ہے۔ اس علاقہ کو اس لئے جُوسَک کہتے ہیں کہ یہاں پر کاریزات کے نہر ٹچ ہوتے تھے۔ یعنی یہ دو لفظ جُو اور سَکّ کو ملاکر اس علاقہ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔  جُوسک تربت شہر سے شمال کی طرف پرانی آبادی ہے جہاں ہمارے ادبی دوست اصغر زھیر رہتے ہیں۔ اصغر زھیر نے مجھ سے کہا تھا جُوسک ضرور جائیں۔ لیکن اس وقت ہمیں میری کے قلعہ پر جانا تھا اس لئے ہمارا جُوسک جانا نہیں ہوا۔ جُوسک کے مکین تعلیم ہو یا کہ کاروبار کا شعبہ دونوں حوالوں سے بنیادی طورپر قابل لوگ ہیں۔

ہم نے جُوسک بازار سے بائیں طرف مند تمپ کے پرانے روڑ کا رستہ لیا اور مغربی سمت روانہ ہوئے۔ سری کَہن اور بُگ بازار کے سامنے میری کلات یعنی قلعہ واقع ہے۔ قلعہ کے قریب واقع آبادی کو بھی میری کہتے ہیں۔  میری قلعہ جانے کے لئے کوئی خاص سڑک نہیں ہے۔ ہم آبادی میں سے ہوکر میری کلات کے نزدیک پہنچے۔ گاڑی کو ایک طرف کھڑا کیا اور پیدل رستہ پکڑا۔ میری کے چاروں اطراف جہاں کسی زمانہ میں آبادی اور سبزہ ہوا کرتا تھا لیکن آج وہاں پر خودرو درخت، کیکر اور جھاڑیوں کی بہتات نظر آتی ہے۔ ہم نے باریک رستہ لیا اور قلعہ پر چھڑ گئے۔ میری کا قلعہ مکمل طورپر مسمار ہو چکا ہے صرف قلعہ کی چند دیواریں موجود ہیں۔ ھزاروں سال کی نشیب و فراز ور مختلف ادوار کے گواہ رہنے والا یہ قلعہ زمانہ کو صرف نشانی کے طور پر یہ شاید سمجھا رہا ہے کہ: 

دھر پرا کارون ءَ نہ اوشتاتگ 

تَھت پرا سد گنجیں سلیمان ءَ

یعنی وقت اور دور کسی کے لئے پائیدار ثابت نہیں ہوسکتے۔ ہر چیز اپنا وقت اور دور مکمل کرنے کے بعد فنا ہوجاتی ہے۔ میری کا قلعہ جو بہت سے ادوار میں ھزاروں سال سے نجانے کتنے حکمرانوں کا تخت رہا ہے اور نجانے کتنے علاقے اور شہر اس کے زیر نگین رہے ہیں آج لاوارث ہوکر ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے۔ 

میری کا قلعہ مکران کی سرزمین کی پرانی سے پرانی نشانی ہے۔ اس کے بارے میں متعدد ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ اس کی تاریخ سات سے آٹھ ہزار سال تک پرانی ہوگی۔ 1987 میں یہاں پر فرانسیسی اور اٹیلین آرکیالوجیسٹ نے میری قلعہ کی کھدائی کی ہے اور کھدائی کے دوران یہاں پر بہت سے مٹی کے اوزار کی باقیات اور برتن دریافت ہوئے تھے۔ قلعہ کے نیچے تہہ خانہ میں کمرے بھی دریافت کئے گئے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کی ٹیم نے جب کھدائی کے دوران مختلف آثار قدیمہ کی کاربن اور ڈینٹنگ ٹیسٹ کی تو اس کے نتیجہ میں قرار دیا گیا کہ میری کا قلعہ مونجھو دھڑو اور ھڑپہ کی تہذیب سے مطابقت رکھتی ہے اور اس کی تاریخ چھ ہزار سال پرانی ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یہ چھ ہزار سال کا ایسا سائیٹ ہے کہ یہ تواتر سے آباد ہوکر انسیویں صدی تک قائم رہی تھی۔ مختلف ادوار میں اس قلعہ نے اپنے اوپر الگ الگ دور میں الگ الگ حکمران بھی دیکھے ہیں۔ میری کے قلعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قلعہ ایک مرکز ہوا کرتا تھا جس طرح کیچ اور مکران کے دور میں یہ ھیڈ کوارٹر کا درجہ رکھتا تھا، اسی طرح پہلے کے ادوار میں بھی یہ قلعہ مرکز تھا۔ 

ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ میری کا یہ قلعہ کسی زمانہ میں بہت بڑا قلعہ ہوا کرتا تھا اور اسکے اطراف میں بہت بڑی آبادی بھی وجود رکھتی تھی۔ قلعہ کے اطراف ایک خندق بھی موجود تھا اس خندق کے آثار آج سے تقریبا پچاس سال پہلے بھی موجود تھے۔ واجہ ایاز ھاشم کہتے ہیں کہ کَلّگ کے رہائشی بزرگ واجہ حاجی عثمان نے یہ خندق اپنی جوانی کے ایام میں دیکھا ہے۔ جب فرانسیسی ٹیم نے 1980 کے دھائی میں اس قلعہ میں کھدائی کی تو کھدائی کے دوران ٹیم کے تین لوگ اچانک قلعہ کے سرنگ میں کھوگئے جس سے ان کے ساتھی پریشان ہوگئے۔ اس موقع پر انتظامیہ کو بلایا جاتا ہے اور وہ قلعہ کے اندر اپنے بچھڑنے والے ساتھیوں کو تلاش کرتے ہیں۔ بڑی دیر کے بعد ٹیم کے تینوں لوگ خود قلعہ سے باہر نکل آتے ہیں جو قلعہ میں اپنے گم ہونے کی روئیداد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "قلعہ کے تہہ میں انہوں نے بہت سے کمرے دیکھے جس پر انہوں ان کی گنتی شروع کی۔ کمروں کی تعداد تقریبا 80 اور 100 قریب ہیں۔" 

اسی طرح واجہ غنی پرواز کے مطابق بلوچ لکھاری واجہ عبدالغفار ندیم کا حوالہ دیکر کہتے ہیں ایک مرتبہ عبدالغفارندیم نے کو بتایا تھا کہ"ان کے یعنی عبدالغفار ندیم کے دادا نے کہا ہے کہ ان کے زمانے میں میری کے قلعہ میں بہت بڑی سرنگ ہواکرتی تھی اس سرنگ میں وہ کافی آگے چلے گئے تھے لیکن سرنگ اختتام تک نہیں پہنچا تھا"۔ ان تمام باتوں سے عیاں ہے کہ یہ قلعہ ایک بہت بڑا قلعہ تھا اور اس کے اطراف میں بہت بڑی آبادی رہائش پذیر تھی۔ فرانسیسی آرکیالوجیکل ٹیم کے موجودہ خاتون سربراہ اورر ڈیڈیار  کہتی ہیں کہ "میری کے قلعہ میں پوری طرح کھدائی نہیں کی گئی۔ اب تک قلعہ کی صرف 40 فیصد کھدائی کا کام ہواہے اور 60 فیصد کھدائی کا کام باقی رہتا ہے۔ اگر قلعہ کی کھدائی مکمل طورپر سرانجام دی جائے شاید یہاں سے چھ ہزار سال سے قبل کے آثار بھی برآمد ہوں"۔ 

میری کا قلعہ اگر کوئی دوسرے ملک میں ہوتا تو یہ لازمی طورپر اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے ریکارڈ میں درج ہوتا اور ساتھ ہی بہترین سیاحتی مقام میں اس کا شمار ہوتا۔ اگر اس قلعہ کی دوبارہ تعمیر نو کی جائے تو یہ قلعہ دنیا بھر کے لئے اہم تاریخی اثاثہ ثابت ہوگا۔ لیکن بد قسمتی سے اس تاریخی ثقافتی ورثہ پر کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ میری کا قلعہ پہلے زمانہ میں علاقے کے حکمرانوں اور لوگوں نے محفوظ رکھا تھا لیکن اب لوگ بھی اس سے قطعہ تعلق ہوچکے ہیں۔ اب بس میری قلعہ ایک آثار کی صورت باقی رہ گیا ہے۔ میری کا قلعہ ایک قومی اثاثہ ہے لیکن اس کے چاروں اطراف قبضہ جمایا گیا ہے اور بند باندھے گئے۔ میری قلعہ سے شمال کی طرف میں دیکھ رہا تھا کہ وہاں زمین ہموار کی گئی ہے اور قلعہ کے دامن سے یہاں ہاؤسنگ اسکیم کا کام شروع ہونے والا ہے۔ 

(نوٹ: گیارہویں صدی کے بعد میری کی داستان اگلے قسطوں میں)

(جاری ہے)


Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں