کیچ بات کیچ نئیکہ تربت بات (پانچویں قسط)

 


بلوچی سفرنامہ: اسحاق رحیم

ترجمہ: عبدالحلیم حیاتان 

(پانچویں قسط)

ہم اپنے سفر پر تھے کہ اِسی دوران واجہ قدیر کو چند مہمانوں کی طرف سے فون آتا ہے کہ وہ ریسٹ ہاؤس میں اُن کا (قدیر) کا انتظار کررہے ہیں اور وہاں اُن سے ملنا چاہتے ہیں جس کے بعد وہ مہمان گوادر روانہ  ہونگے۔ میں نے اور پزیر نے فوری طورپر قدیر کو اُس کے مہمانوں کے پاس پہنچایا جس کے بعد میں اور پزیر بازار کی طرف نکل گئے۔ پزیر بلوچی زبان کے اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ملنگ اور درویش طبعیت کے شخص اور ہمارے اچھے دوست ہیں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ جب ہم قبروں کی نشانیاں ڈھونڈ رہے تھے تو پزیر کچھ تھکاوٹ محسوس کررہا تھا۔ اب ہم دونوں تربت بازار میں گھوم رہے تھے مجھے محسوس ہوا کہ پزیر کو کہیں جانا ہے اور دن بھی ڈھلنے والا تھا۔ میں نے اور پزیر نے اپنی شام کو خوشگوار بنانے کے لئے تربت بازار سے اپنا بندوبست بھی کیا جس کے بعد ہم  قدیر کو ریسٹ ہاؤس سے لیکر شاھی تُمپ قلعہ کی طرف نکل گئے۔ 

تربت بازار کے جس جگہ کو سنیما چوک کہتے ہیں قدیر نے ہمیں یہاں پرانا سینما دکھایا۔ یہاں پر سال 2000 سے قبل دو سینما ہواکرتے تھے۔ ایک سنیما کا نام "پاما" اور دوسرے سنیما کا نام "دلبر" تھا۔ پاما سنیما وش ٹی وی کے واجہ احمد اقبال کے والد حاجی محمد اقبال کی ملکیت تھی۔ دوسرا سنیما دلبر ناصر آباد کے کاروباری شخصیت واجہ رسول بخش کوجا کا تھا۔ تربت میں سینما کا دور 1970 سے شروع ہوا جو 2000 تک جاری تھا۔ اِس 30 سال کے عرصہ میں تربت کے فلم بینوں نے بڑے شوق سے سنیماؤں کا رُخ کیا تھا۔ اُس زمانہ جب دن کو آٹھ اور رات کو آٹھ گھنٹے بجلی ہواکرتی تھی تب بھی تربت شہر کا یہ حصہ نصف شب تک پررُونق ہواکرتا تھا۔ شہری یہاں بڑے پردے پر فلم دیکھکر وقت گزاری کرتے تھے۔ 

آج جب ہم اِن قدیم جگہوں کو دیکھنے آئے تھے تو پاما سنیما کی جگہ چاکر مارکیٹ قائم کی گئی ہے جبکہ دلبر سنیما کی جگہ کوئٹہ المشترکہ ٹرانسپورٹ نے لی ہے۔ دلبر سنیما کی دیواریں اب بھی قائم تھے جس پر لگے پردہ پر  حسیناؤں کے ناچ گانے دکھائے جاتے تھے لیکن آج ان دیواروں کے سامنے ایرانی کوکنگ آئل کا امبار پڑا ہواہے اور اس امبار نے دیواروں کو ڈھک دیا ہے۔ بلوچ کہتے ہیں کہ "ھر شئے پہ وتی وھد ءُ زمانگ" یعنی ہر چیز کا کوئی وقت ہوتا ہے۔ سینما اپنے  سنہرے دور کا اختتام کرچکے ہیں۔ سنیما دیکھنے کے بعد ہم شاھی تمپ آئے۔ 

شاھی تمپ میں ایک قدیم قلعہ موجود ہے۔ یہ قلعہ شاہی تمپ کے قلعہ سے زیادہ شاہی تمپ کے مقبرے سے جانا جاتا ہے۔ میں، قدیر اور پزیر شاھی تمپ قلعہ میں موجود تھے۔ اِسی قلعہ کی نسبت سے یہ علاقہ شاھی تمپ کہلاتا ہے۔ تُمپ بلوچی میں اونچی جگہ کو کہتے ہیں۔ وہ جگہ جس کی سطح زمین سے اوپر ہو۔ اِس جگہ کو اِس وجہ سے شاھی تمپ کہتے ہیں کہ یہاں پر شاھی قلعہ موجود ہے۔ شاھی تمپ کا قلعہ اونچے ٹیلے پر موجود ہے۔ ہم  اُس پر چڑھنے لگے۔ قلعہ مسمار ہوچکا ہے صرف اونچی جگہ پر پرانے زمانے کی نشانیاں موجود ہیں۔ دوسری کوئی شے موجود نہیں۔ تاہم قلعہ کے ارد گرد پڑے ہوئے مٹی کے برتنوں کے ٹوٹے ہوئے باقیات سے یہی اخذ کیا جاتا ہے کہ یہ بہت پرانا قلعہ رہا ہے۔ اِس قلعہ پر بہت سے ماہرین آثار قدیمہ نے تحقیق کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ قلعہ زنگیان اور دشت کے دور کا ہے۔ دشت کا دور ماہرین آثار قدیمہ کے نزدیک دو یا چار ہزار سال پرانا ہے یہ حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے کا دور ہے۔ یعنی اِس وقت اِس قلعہ کی تاریخ چھ ہزار سال پرانی ہے۔

ماہرین آثار قدیمہ نے یہاں پر 1996 میں کھدائی کی ہے جن کا تعلق فرانس سے تھا۔ کھدائی کے دوران ماہرین کی ٹیم کو بہت سے آثار ہاتھ لگے تھے جس میں مٹی سے تیار کئے گئے برتنوں کے علاوہ تقریبا 15 کے قریب انسانی جسم کے باقیات بھی دریافت کئے گئے تھے۔ ماہرین نے انسانی باقیات دیکھنے کے بعد اپنی حتمی رائے میں بتایا تھا کہ یہ مقبرے بہت پرانے ہیں۔ یہاں کی سیولائیزیشن بیس وال کے مطابق ھڑپہ سندھ اور مہر گڑھ کی سیولائیزیشن سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ایسے مٹی کے برتن جو شاہی تُمپ کے قلعہ میں دریافت ہوئے ہیں اِس طرح کے آثار مکران کے متعدد علاقوں میں بھی دریافت کئے گئے ہیں۔ جس میں جیونی سے لیکر بسول سمندر کنارے ، دشت ندی کے اوپر سنگئی سے لیکر جیونی تک۔ اسی طرح مند تمپ کے مختلف مقامات کے علاوہ شھرک، سامی اور بلیدہ کے بعض مقامات پر ایسے آثار ملے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ ایسے آثار کا تعلق اُس زمانہ سے ہے جس کو آج چھ ہزار سال پورے ہوئے ہیں۔ شاھی تُمپ کا یہ قلعہ اور مقبروں کی نشانیاں ایک اونچی جگہ پر واقعہ ہیں جو کیچ ندی کے جنوب میں تربت کے مغرب کی طرف پڑھتا ہے۔ 

شاھی تمپ کا یہ قلعہ بس نشانی کے طورپر باقی رہ گیا ہے۔ لیکن اِس کے بارے میں کہا جاتا یے کہ 19 ویں صدی کے اوائل میں جب گچکی حکمرانوں نے میری کا قلعہ چھوڑا تھا تو اِس کے بعد وہ شاھی تمپ کے قلعہ میں آباد ہوئے تھے۔ اِس کے بعد یہ قلعہ صرف نشانی کے طورپر موجود ہے جو ایک شاندار اور قدیم تاریخ کی گواہی دیتا ہے۔ یہ قلعہ اب ملیا میٹ ہوگیا ہے ساتھ ہی اس کے ملبے کے نیچے بہت سی کہانیاں اور داستانیں بھی دفن ہوگئی ہیں۔ 

(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

گْوادر: واٹر ٹیبل میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہونے لگا؟

اُستاد عبدالمجید گْوادری ءِ سالروچ

گْوادر کا ”ملا فاضل چوک“ خبروں میں